تاریخ گکھڑ

تاریخ گکھڑ

گکھڑمنڈی ضلع گو جرانوالہ اور تحصیل وزیرآ باد کے سنگم میں واقع صوبہ پنجا ب کی زرخیززمین کا ایک معروف ترین تاریخی شہرہے ایک روایت کے مطابق تاریخ شا ہد ہے کہ پنجاب کے علا قہ پر قد یم دراوڑ قو م آباد تھی غا لباََ دو ہزار قبل مسیح کو آریا لوگ بر صغیر کے مغربی دروں سے پنجاب کے علاقہ میں داخل ہوئے اور یہاں آباد دراڑوں کو مار بھگایا اسی دورانیے میں گوجرانوالہ کا علاقہ آباد ہوا بلکہ یہ آریاوں کا دارالخلافہ کہلایا چینی تاریخ دان ہیون سانگ نے ۰۳۶قبل مسیح اسی علاقہ کو سیکیابادنکی نام سے مذکور کیا ہے ۔ جنرل بکنگھم نے بھی اپنی تحریوں میں اسی علاقہ کی تصدیق کی ہے ازاں بعد تاریخ میں راجہ آشوک کے زمانہ تک اسی علاقہ کا کوئی اہم تذکرہ نہیں ملتا ہے ۔ البتہ ۹۷۹ میں پنجاب کے حکمران راجہ جے پال جس کا مسکن بھی اسی ضلع کا علاقہ تھا غزنوی نے غزنوی سلطنت کو فتح کرنے کے لیئے اس پر حملہ کیا لیکن شکست سے دوچار ہوا نتیجہ یہ نکلا کہ دریا ئے سندھ (اٹک )کا علاقہ غزنی سلطنت میں شامل ہو گیا تو راجہ جے پال نے لاہور کا رخ کیا اور بھرت کو شکست دے کر لاہور پر قبضہ کر لیا ۱۲۰۱ میں محمود غزنوی نے پنجاب کو فتح کر کے اسے اپنی قلمروں میں شامل کر لیا اور 1187 میں اس علاقہ سے محمود غزنوی کے اقتدار کا خاتمہ خسرو ملک کے ہاتھوں ہوا ۔ خسرو نے لا اہور میں ایک دربار منعقد کیا اور قطب الدین کو اپنا ولی عہد مقرر کرکے دہلی کا رخ کیا قطب الدین کے دور میں تاج و الدین یلدوز گوجرانوالہ اور گردو نواح فتح کرتا ہوا لاہور پر قابض ہو گیا قطب الدین نے یلدوز کی بیٹی سے شادی کر لی اور انتہائی دانشمندی سے یہ علاقہ یلدوز کی عمل داری سے واہ گزار کرا لیا جب چنگیزخان سے شکست کھا کر خوارزم شاہ ن ے غزنی پر قبضہ کر لیا تو تاج الدین یلدوز ایک مرتبہ پھر گوجرانوالہ سے ہوتا ہوا لاہور پر قابض ہو گیا اس دوران گوجرانوالہ میں کھوکھروں کا طوطی بولتا تھا 1269سلطان بلبن نے منگولوں کی مدد سے کھوکھروں کو زیر کیا اور یہاں کی اجڑی بستیوں میں دوبارہ قلعے قائم کیے 1339ہجری میں امیر تیمورالدین دریائے سندھ جہلم اور چناب کو عبور کرتے ہوئے دوآبہ کے علاقہ میں داخل ہوا مغل شہنشاہ جہانگیر کی کتاب (تزک جہانگیری ) میں بھی ہ میں گوجرانوالہ کا موجودہ علاقہ گرجاکھ کا تذکرہ ملتا ہے جہاں شہنشاہ اکثر شکار کی غرض سے آیا کرتا تھا 1540ہجری میں ہندوستان کے افغان حکمران محمد فرید خان ولد حسن خان المعروف شیر شاہ سوری نے پرانے راستے سے ہٹ کر نیا راستہ تعمیر کروایا جو جرنیلی سٹر ک کے نام سے مشہور ہوا جو کے آج کل جی ٹی روڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے اسی جرنیلی سٹر پر گوجرانوالہ سے 18کلو میٹر جانب شمال ہمارا قصبہ گکھڑ منڈی آباد ہے یہ علاقہ گکھڑ قوم کی سرحد اور صدر مقام تھا مطالعہ تارخ سے پتہ چلتا ہے کہ شیر شاہ سوری وفات کے بعد شہنشاہ ہمایوں نے جب ایران طماسپ کی مدد سے ہندوستان پر حملہ کیا تو اسے گکھڑوں کی مدد کی ضرورت پڑی تو گکھڑوں نے اس کے عوض اپنے علاقوں میں خود مختاری طلب کر لی چنانچہ ہمایوں نے چناب سے دس فرسنگ جانب لاہور گکھڑ تک کا علاقہ ان کی عملداری میں دے دیا لہذا گکھڑوں کی موجودو سرحد گکھڑ تک قائم ہو گئی ۔ شیر شاہ سوری کے زمانے میں گکھڑ میں ایک چوکی بھی قائم تھی اسی کی مناسبت سے یہاں آباد ہونے والی آبادی کا نام گکھڑ چوکی پکارا جانے لگا چوکی کی یہ عمارت عرصہ دراز تک موجودہ گرڈ اسٹیشن اور ٹیلی فون ایکسچینج کے شمالی کونے میں آباد رہی مگر اب اس کے نشانات تک ناپید ہیں شہنشاہ اکبر کے زمانے میں جب تمام خود مختار ریاستیں ختم ہوئیں تو گکھڑوں کی سلطنت کا بھی خاتمہ ہو گیا ایک راویت کے مطابق جب سواہاہ کے مقام پر گکھڑوں کے ہاتھوں شہاب الدین غوری قتل ہو تو شہاب الدین کی افواج نے گکھڑوں کا جینا دوبر کر دیا تو یہ لوگ موجودہ گکھڑ کے مقام پر آکر آباد ہوئے اور اسی مناسبت سے اس علاقے کا نام گکھڑ مشہور ہوا تاریخ مخزن پنجاب 1877کے مطابق جرنیلی سٹرک پر آباد ہونے کی وجہ سے یہ قصبہ کئی بار آبد اور ویران ہوتا رہامغلیہ سلطنت کے زوال پر طواءف الملو کی فائدہ اٹھاتے ہوئے نور محمد چٹھہ نے اس علاقہ میں چٹھہ ریاست کی بنیاد رکھی ازاں بعد پیر محمد چٹھہ کے دور میں اس قصبہ کے زمیندار خوشحال ہوئے رنجیت سنگھ کے دور میں سردار مہان سنگھ نے دھوکہ دہی سے پیر محمد چٹھہ کو گرفتار کر کے چٹھہ ریاست کے کل علاقہ پر قبضہ کر لیا اس و قت گکھڑ کی کل آبادی 2930پر مشتمل تھی کل 55کاروباری مراکز پختہ و نیم پختہ کے علاقہ تقریباً 40رہائشی مکانات تھے

1849

میں یہ علاقہ بھی دیگر علاقوں کی طرح انگریزی تسلط میں آ گیا انگریز دور میں اس قصبہ میں نارمل سکول ،ریلوے اسٹیشن ، اور دیگر کئی تعمیرات ہوئیں اسی دور میں یہاں اجناس کی تجارت کے لئے غلہ منڈی قائم ہوئی اسی مناسبت سے اس قصبہ کو گکھڑ منڈی کے نام سے پکارا جانے لگا تقسیم سے پاکستان کے بعد بھی یہاں کے تعمراتی کام ہوئے اور ابھی تاک جاری و ساری ہیں

Leave your comment
Comment
Name
Email