دائم بٹ

دائم بٹ

شہباز احمد بٹ 25 فروری1975 ء کو گکھڑ منڈی ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ھوئے ان کے والد کا نام محمد اسماعیل بٹ ھے 2001 سے شاعری کا آغاز کیا اپنا تخلص دائم لکھتے ہیں اور ادبی دنیا میں دائم بٹ کے نام سے جانے جات ہیں. انتہائی بہترین اور اعلی اسلوب کے شاعر ہیں غزل اور نظم میں اپنی مثال آپ ہیں گریجویشن کرنے بعد سرکاری محکمہ ڈاک میں ملازمت اختیار کی اور تاحال اسی محکمہ میں اپنے فرائض انجام دے رھے ھیں
دائم بٹ تین کتابوں کے خالق بھی ھیں جن کے نام درجہ ذیل ھیں
1 ،، دل شکستہ اداس مت ہو ،،
2 ،، میری محبت کا مان رکھ لو ،،
3 ،، راندہ درگاہ ،،
تعارف کے طور پر ان کی کتابوں سے کچھ انتخاب پیش خدمت ہے

 

نظم


تجھے خبر ھے.؟؟؟؟؟
مجھے خبر ھے..!!!!!!
یہ وقت کیا ھے…
یہ وقت صبح-ازل سے پہلے بھی چل رھا تھا
یہ وقت شام-ابد کے مرنے کے سوگ میں بھی نہیں رکے گا…
یونہی چلے گا…..
خدا ھے یا کوئی ناخدا ھے.
یہ وقت کیا ھے…
جو اپنے وقتوں کےسب خداؤں کو
ناخداؤں کو کھا رھا ھے
مگر نہ خود یہ فنا کے ھاتھوں میں آرھا ھے…
ھنوز چلتا ھی جا رھا ھے
ازل سے اھل-علوم جس کی
سبک روی پر
سوار ھونے کی کوششوں میں
لگے ھوئے ھیں
مگر ھیں ناکام سب ابھی تک
وہ کیونکہ ھیں خام سب ابھی تک
تجھے خبر ھے؟؟؟
مجھے خبر ھے!!!
یہ وقت کیا ھے؟؟؟،
یہ وقت بندر ھےایسے لوگوں کا
روپ دھارے قلندروں کا…
جو انگلیوں پر نچا رھے ھیں…
تماشا اس کا دکھا رھے ھیں..
جو ایک پل میں…
مقام-سدرہ پہ جا رھے ھیں..
مقام-سدرہ سے آ رھے ھیں.
خدا ھیں یا واقف-خدا ھیں…
یہ لوگ کیا ھیں..؟؟؟؟
تجھے خبر ھے؟؟؟؟؟
مجھے خبر ھے!!!!!!!
یہ لوگ روشن جبین والے
یہ لوگ حق الیقین والے
یہ لوگ نورانی خاک سارے
یہ لوگ ازلوں سے پاک سارے..
تجھے خبر ھے ؟؟؟؟
مجھے خبر ھے!!!!!!!
یہ وقت کیا ھے ؟؟؟؟
یہ لوگ کیا ھیں….؟؟

دائم بٹ

——————-
نظم


ابھی کہاں وصل کی گھڑی ھے
ابھی تو ھر پل، ھر ایک منظر دھواں دھواں ھے
ابھی تو ھر نقش بے نشاں ھے
ابھی تو عقل و نظر کے تن پر
ھزارہا وھم رینگتے ھیں
ابھی تو آنکھوں کی پتلیوں میں
عجیب سے خوف ناچتے ھیں
ابھی تو سوچوں کی سرزمیں پر ھے
بے یقینی کی دھند ھر سو
ابھی تو رستہ نہ مجھکو کوئی سجھائی دے ھے
ابھی تو پاؤں ھیں لڑکھڑاتے
ابھی تو جذبے ھیں ڈگمگاتے
ابھی کہاں وصل کی گھڑی ھے
ابھی تو سانسوں کے آبشاروں میں
زھر شامل ھے نخوتوں کا
ابھی تو سر میں غرور سا ھے
ابھی تو شانوں پہ خود نمائی کے آئنے ھیں
ابھی تو سینے پہ جھومتے ھیں نسب کے تمغے
ابھی تو ازبر زمانہ سازی کے ھیں طریقے
ابھی تو من میں ھے حرص باقی
ابھی تو دل کی ھر ایک دھڑکن ھوس زدہ ھے
ابھی تو ھونٹوں پہ لمس تازہ ھے زندگی کا
ابھی تو ماتھے پہ داغ روشن ھے تیرگی کا
ابھی کہاں وصل کی گھڑی ھے
ابھی تو چاھت کا پہلا سجدہ ادا ھوا ھے
ابھی تو توبہ کا پہلا آنسو فقط گرا ھے
ابھی تو پل بھر سفر کٹا ھے
ابھی تو صدیوں کا فاصلہ ھے
ابھی تو تقدیر کی جبیں پر
فراق راتیں لکھی ھوئی ھیں
ابھی تو درگاہ-حسن-جاں میں
دعا کی نبضیں تھمی ھوئی ھیں..
ابھی کہاں وصل کی گھڑی ھے..

دائم بٹ

——————-

غزل
“راندہ درگاہ” سے

کبھی جلتی سڑکوں پہ دربدر کبھی اجڑے گھر میں پڑے رھے
غم_زندگی کی تھیں گردشیں کہ یونہی سفر میں پڑے رھے

ترے واھموں کے سفر میں بھی جو ترے شریک_سفر نہ تھے
ترے آستاں سے ذرا پرے تری رہگزر میں پڑے رھے

مجھے چاھتا جو تری طرح کوئی دوسرا نہیں مل سکا
ترے ھجر کے جو شگاف تھے میرے بام ودر میں پڑے رھے

غمعشق تھا غمدھر بھی کبھی اس کے ھم کبھی اس کے ھم
مٹے جانے کیسے وہ فاصلے جو دل و نظر میں پڑے رھے

وہ فنا سے لے کے بقا تلک جو تھیں منزلیں میں گزر گیا
کہیں راستے میں ھی رہ گئے جو اگر مگر میں پڑے رھے

وہ حرم تھا دیر کہ بتکدہ کیا مقام تھا وہ کسے پتہ ؟
ترا غم لئے جہاں عمر بھر غم_چارہ گر میں پڑے رھے

نہ ھو چپ ، بتا مرے ھمسفر مجھے کچھ تو ان کا حساب دے
وہ جو خواب کرچیوں کی طرح مری چشم_تر میں پڑے رھے

دائم بٹ

——————-

غزل
“راندہ درگاہ” سے

دربدر تمثیلگردکارواں ھوتی گئی
رفتہ رفتہ زندگانی رائگاں ھوتی گئی

پوچھ مت بے اعتنائی گرش_افلاک کی
وقت کی ھر اک حقیقت داستاں ھوتی گئی

پہلے تو بے رحم ھو کر بے سروساماں کیا
پھر سمندر کی ھوا خود بادباں ھوتی گئی

بے ردائی ڈھل گئی جب بے حسی کی ذات میں
دھوپ ھی اس شہر میں پھر سائباں ھوتی گئی

جس نظر نے اک نظر بھی عمربھر دیکھا نہیں
وہ نظر ھی اس نظر کا آستاں ھوتی گئی

میری خاطر ان گنت ٹوٹے ستارے رات بھر
میری خاطر یہ زمیں ھی آسماں ھوتی گئی

یوں تو میری چشم_تر کی اور بھی تھی شاعری
جو غزل تجھ پر لکھی وہ جاوداں ھوتی گئی

دائم بٹ

——————-

غزل

غم_زندگی کے غبار کو کہیں آسرا نہیں مل سکا
ترے بعد تجھ سا جہان میں کوئی دوسرا نہیں مل سکا

مری آنکھ جس کے خمار میں کئی منزلوں سے گزر گئی
مری چاھتوں کی جبین کو وھی نقش_پا نہیں مل سکا

ترے درد سے جو بھرا نہ ھو تری یاد میں جو فنا نہ ھو
مجھے اپنے آپ سے بھاگنے کا وہ راستہ نہیں مل سکا

مجھے زندگی سے محبتوں کی سزا میں قتل کیا گیا
مرا زندگی کے وجود سے کوئی واسطہ نہیں مل سکا

سنو ایک ساعت_زرد میں مرے سارے خواب بکھر گئے
مجھے عمر بھر کی ریاضتوں کا بھی کچھ صلہ نہیں مل سکا

دائم بٹ

—————

غزل

ایک طرفہ چاھت کے سلسلے نہیں اچھے
ریت کے گھروندوں میں آسرے نہیں اچھے

آؤ عشق کرتے ھیں اک نئے ھی چہرے سے
دائرے کے اوپر تو دائرے نہیں اچھے

زندگی کو رھنے دو زندگی کی خاطر بھی
ھر قدم پہ اپنے ھی فائدے نہیں اچھے

برف جیسی راتوں میں برف ھی نہ ھو جائیں
اس قدر بھی آنکھوں میں رتجگے نہیں اچھے

آندھیوں کے موسم میں کچھ بچا نہ پاؤ گے
کھوکھلے درختوں پر گھونسلے نہیں اچھے

جانے کب کہاں اپنی منزلیں بدل جائیں
موسمی پرندوں سے واسطے نہیں اچھے

پھر بھی پار کرنا ھے ھجر کے سمندر کو
جانتا ھوں لہروں کے زاویے نہیں اچھے

نکتہ چیں ھیں نبیوں کے , بے ادب جو ولیوں کے
اس طرح کے لوگوں سے رابطے نہیں اچھے

آپ ٹھہرے اھل_زر اور ھم فقط شاعر
ھم ھزار اچھے ھوں آپ سے نہیں اچھے

دائم بٹ

——————-

غزل

خودی ھے اب تو نہ بے خودی ھے بہت دنوں سے
عجب سی حالت یہ ھو گئی ھے بہت دنوں سے

میں کون ھوں اور کس جگہ ھوں خبر نہیں ھے
کچھ ایسی مجھ پر غنودگی ھے بہت دنوں سے

نہ آرزو ھے نشاط-جاں کی نہ فکر-غم ھے
نہ دوستی ھے نہ دشمنی ھے بہت دنوں سے

مٹا کے رکھ دے جو سب سلیقے، سنو وہ وحشت
لہو میں میرے رچی ھوئی ھے بہت دنوں سے.

تمہارے قدموں کی چاپ ھے یا قضا کی آھٹ
سماعتوں میں جو گونجتی ھے بہت دنوں سے

وہ آنکھ جس کے خیال میں، میں کہ دیوتا تھا
نظر سے مجھکو گرا چکی ھے بہت دنوں سے

میں رائگاں تھا مگر نہ اتنا بھی رائگاں تھا
گنوا کے مجھکو وہ سوچتی ھے بہت دنوں سے

ھے جیسے طوفان کوئی دائم پھر آنے والا
تمام جانب جو خامشی ھے بہت دنوں سے…

دائم بٹ

——————-

غزل

جسے ڈھونڈتی رھی چشم_تر نہ مجھے ملا نہ تجھے ملا
غم_زںدگی کا وہ چارہ گر نہ مجھے ملا نہ تجھے ملا

چلو چاند لے کے ھیں ڈھونڈتے اسے بجھتی شام کے عکس میں
جو بچھڑ کے پھر کسی موڑ پر نہ مجھے ملا نہ تجھے ملا

تو غبارعقل میں کھو گیا میں بھی گردکارواں ھو گیا
رہ_شوق میں کوئی راھبر نہ مجھے ملا نہ تجھے ملا

تری کشت_جاں میں جو چھید تھے مرے دل میں بھی کئی بھید تھے
مرا رازداں ترا ںوحہ گر نہ مجھے ملا نہ تجھے ملا

سرشہرجاں سر_دلرباں وھی خواب جس کی طلب لئے
میں بھی دربدر تو بھی دربدر نہ مجھے ملا نہ تجھے ملا

مری چاھتوں کا سفیر تھا جو تری وفا کا نظیر تھا
وہ ستارہ پھر کبھی ٹوٹ کر نہ مجھے ملا نہ تجھے ملا

دائم بٹ

——————-

غزل

ھیں عجیب طرح کے فاصلے مری ذات سے تری ذات تک
جو تمام عمر نہ طے ھوئے مری ذات سے تری ذات تک

کبھی تیری راہ میں دشت تھا کبھی میرے پاس نہ وقت تھا
کبھی لوگ درمیاں آ گئے مری ذات سے تری ذات تک

وھی جسم کی ھیں کثافتیں وھی روح کی ھیں مسافتیں
وھی وحشتوں کے ھیں سلسلے مری ذات سے تری ذات تک

کہیں کھو کے رہ گئیں منزلیں کہیں لٹ کے رہ گئے قافلے
کہیں راستے ھی نہ مل سکے مری ذات سے تری ذات تک

نہ وہ قربتوں کی تپش رھی نہ وہ چاھتوں کی خلش رھی
ھوئے جانے کیسے یہ حادثے مری ذات سے تری ذات تک

وہ ھوس پرست کے نام سے جو پکارتے تھے مجھے سنو !
انھیں بندگی کے نشاں ملے مری ذات سے تری ذات تک

کبھی فرصتیں جو نصیب ھوں چلے آنا میرے مزار پر
ھیں ادھورے کتنے معاملے مری ذات سے تری ذات تک

دائم بٹ

——————-

دتوں جن کو خیالوں میں تراشا اکثر
وہ ھی رخسار وہ ھی ھونٹ وہ ھی آنکھیں ھیں

کیا اسے عشق پکاریں کہ ھوس تو ھی بتا
کوئی بھی بزم ھو اب صرف تری باتیں ھیں

ان کو دیکھا تو حقیقت میں خدا یاد آیا
تیرے رخسار کہ قرآن کے پارے جیسے

کچھ یوں زندہ ھیں سر_دار تری راھوں میں
ڈوبنے والا کوئی ڈھونڈے سہارے جیسے

ایسا شہکار کہ دیکھا نہ زمانے میں کہیں
یہ ترے ھونٹ کہ دو نیم قمر ھو جیسے

جانے کیوں بجھتی نگاھوں کو یہ خوش فہمی ھے
زندگی بھر کے سفر کا تو ثمر ھو جیسے

توڑ بیٹھے ھیں محبت کے نہ کرنے کی قسم
تیری آنکھیں ھیں کہ خوابوں کے جزیرے جیسے

یہ الگ بات کہ پہچان نہ پایا کوئی
ورنہ اس شہر میں ھم لوگ تھے ھیرے جیسے

دائم بٹ

——————-

اپنی والدہ کے لئے لکھا خوبصورت کلام
آپ تمام دوستوں کے نام

اپنی پلکوں پہ مرے اشک پرونے والی
مجھ سے بھی پہلے مرے درد پہ رونے والی

مجھکو احساس_یتیمی سے بچائے رکھا
پھول ھی پھول مری راھوں میں بونے والی

میری ھر سانس ھے مقروض_محبت تیری
بوڑھے ھاتھوں سے مرے کپڑوں کو دھونے والی

صبر اور شکر تری عمر کا حاصل ٹھہرے
قلزم_فقر میں تن من کو ڈبونے والی

تجھکو انعام ملے کیوں نہ کلید_جنت
حب_درویشاں میں ھے پاس تو ھونے والی

مجھکو جرموں کی تلافی کا بھی موقعہ نہ دیا
بے خیالی میں مرے ھاتھ سے کھونے والی

روز روتی ھے مری تلخ مزاجی تجھکو
میٹھی باتوں سے مرے دل کو بھگونے والی

کون راتوں کو مرے واسطے اب جاگے گا
تخت_فردوس پہ آرام سے سونے والی

ماں کو کھویا ھے تو یہ راز کھلا ھے دائم
ماں تو ماں ھوتی ھے چاھے ھو کھلونے والی

دائم بٹ

——————-

2001 میں لکھی اپنی ایک خوبصورت غزل
آپ دوستوں کی نذر

لپٹ کر خشک پتوں سے ھوائیں بین کرتی ھیں
برس کر بانجھ دھرتی پر گھٹائیں بین کرتی ھیں

کہیں ڈھولک جو بجتی ھے تو اک اجڑی حویلی میں
کسی ناکام الفت کی وفائیں بین کرتی ھیں

تمہیں معلوم ھے مہتاب کو جب داغ لگتا ھے
پہن کر ماتمی کپڑے فضائیں بین کرتی ھیں

سنا ھے تو پشیماں ھے گنوا کر وصل کے لمحے

سنا ھے رات دن تیری انائیں بین کرتی ھیں

تمہارے فیصلے پر ناچتے ھیں جھوٹ کے سائے

ھماری بے گناہی پر سزائیں بین کرتی ھیں

جبیں سجدے میں رکھتا ھوں تو بن کر اشک پلکوں پر
مرے تاریک ماضی کی خطائیں بین کرتی ھیں

کسی کے گھر میں رقصاں ھے گلابوں کی مہک دائم
کسی کے سونے آنگن میں خزائیں بین کرتی ھیں

دائم بٹ

—————-

اپنا پسندیدہ کلام
تمام دوستوں کے نام

جو خزاں میں شامل_درد تھے انہی خشک پات سے بھی گیا
مجھے صبح_نو کی تلاش تھی میں اندھیری رات سے بھی گیا

تجھے ساحلوں میں جو ڈھالتا جو بھنور سے مجھکو نکالتا
مجھے وہ خدا بھی نہ مل سکا میں منات و لات سے بھی گیا

بڑے خواب تھے مری آنکھ میں کہ میں ایک تھا کئی لاکھ میں
مجھے بے زری یوں نگل گئی کہ میں معجزات سے بھی گیا

مری عمربھر کا صلہ تھا تو بڑی مشکلوں سے ملا تھا تو
تجھے ایک پل میں گنوا کے میں بھری کائنات سے بھی گیا

تری جستجو کے سفر میں تھا میں نہ جانے کیسے نگر میں تھا
کہیں دوجہان تھے ھم نفس کہیں اپنے ساتھ سے بھی گیا

مرے دوستو کی یہ چال ھے کہ مرے عدو کا کمال ھے
میں سمندروں کا تھا ھم نشیں میں لب_فرات سے بھی گیا

میں عبادتوں کا سرور تھا میں محبتوں کا غرور تھا
میں فنا کے دام میں آگیا میں بقائے ذات سے بھی گیا

دائم بٹ

————  

غزل

گر مرے ھاتھ میں آئے یہ نظام_قدرت
اپنی قسمت میں ترے پیار کی دولت لکھ دوں

لامکانوں میں لئے تجھ کو اڑے جس کی خلش
تیری سانسوں میں وھی سوز_محبت لکھ دوں

تیرے چہرے سے فرشتوں کا تقدس چھلکے
تیرے ھونٹوں پہ صحیفوں کی تلاوت لکھ دوں

تیرے کردار سے خوشبوئے قلندر آئے
تیری تقدیر میں رندوں کی امامت لکھ دوں

کوئی سائل ترے آنگن سے نہ خالی پلٹے
تیرے ھاتھوں میں سخاوت ھی سخاوت لکھ دوں

تجھ کو دیکھے جو قیامت تو قیامت کر دے
یوں ترے حسن_قیامت کو قیامت لکھ دوں

جو مجھے فکرغم دھر سے آزاد کرے
تیری آنکھوں میں وہ معصوم شرارت لکھ دوں

تو جہاں ٹھہرے، وھاں منزل_ دنیا ٹھہرے
تیرے قدموں میں زمانے کی قیادت لکھ دوں

تیرے افکار سے رومی کو ملے آب_ حیات
تیری گفتار میں عربوں کی فصاحت لکھ دوں

تیرے عارض سے بہاروں کو عنایت ھوں گلاب
تیری زلفوں میں اجالوں کی تمازت لکھ دوں

یہ جو بے نام سا رشتہ ھے ترے میرے بیچ
گر اجازت ھو تو نام اس کا عبادت لکھ دوں

دائم بٹ

———– 

غزل

خدا بناتے چلے جا رھے ھیں صدیوں سے
بشر مٹاتے چلے جا رھے ھیں صدیوں سے

یہ کس نے کھینچ دیں نفرت کی ھم میں دیواریں
لہو بہاتے چلے جارھے ھیں صدیوں سے

عجیب خبط ھے اس شہر-بے سماعت میں
صدا لگاتے چلے جا رھے ھیں صدیوں سے

قیام اپنے لئے موت کے ھے مترادف
سفر بڑھاتے چلے جا رھے ھیں صدیوں سے

دکھائی دیتا ھے یہ آئینے میں کون ھمیں
نظر چراتے چلے جارھے ھیں صدیوں سے

ھم ایسے دھوپ گزیدہ کہ صحرا در صحرا
شجر اگاتے چلے جا رھے ھیں صدیوں سے

ھم اپنے مد-مقابل ھیں آپ ھی دائم
شکست کھاتے چلے جا رھے ھیں صدیوں سے


دائم بٹ

———— 

غزل

آس کے ٹوٹے ھوئے پر نہیں دیکھے جاتے
روح میں ھوتے ھوئے در نہیں دیکھے جاتے

کوئی ترکیب لڑاؤ کہ پلٹ کر جھپٹیں
ہار کر بھاگتے لشکر نہیں دیکھے جاتے

میرے احساس کے جہرے سے کھرج دو آنکھیں
مجھ سے یہ کرب کے منظر نہیں دیکھے جاتے

قہقہے جن کی فضاؤں میں نمو پاتے تھے
زد میں سناٹوں کی وہ گھر نہیں دیکھے جاتے

اے مرے داغ زدہ خواب تجھے کیا معلوم ؟
کھیت دہقانوں سے بنجر نہیں دیکھے جاتے..

میری آنکھوں سے مرے دل کو ھٹا دو پل بھر
اس قدر زخم برابر نہیں دیکھے جاتے

ھم تری یاد میں مجذوب پڑے رھتے ھیں
ھم تری بزم میں اکثر نہیں دیکھے جاتے

دائم بٹ

Leave your comment
Comment
Name
Email