خالد سروحی

خالد سروحی

خالد سروحی 12.05.1976 کو گکھڑ میں پیدا ہوئے. میٹرک تک تعلیم حاصل کی. کافی عرصہ بسلسلہ روزگار بیرون ملک مقیم رہے. اردو اور پنجابی کے شاعر ہیں اور ان کا کلام مختلف ادبی جرائد میں چھپتا رہا ہے. گکھڑ کی دھرتی اپنے اس سپوت پہ ناز کرتی ہے

تعارف کے طور پر ان کی چند غزلیں پیش خدمت ہیں

غزل 

ہمیں  یہ   لگا  آسماں  پر  کھڑے  ہیں
جو  آ  کر  ترے  آستاں  پر کھڑے  ہیں

شب  و روز کی ہو گی محنت  سبھی کی
تبھی  لوگ  آج اس مکاں پر کھڑے ہیں

خدا بلبلوں سے حساب اِس کا لے گا ؟
جو کچھ دیر آبِ رواں پر کھڑے ہیں

فلک کے ستاروں سے تھی جن کی رغبت
وہ جگنو بھی اب کہکشاں پر کھڑے ہیں

ترے سامنے میں کبھی کہہ نہ پایا
کئی تلخ جملے زباں پر کھڑے ہیں

نہ دنیا کمائی نہ دیں ہی کمایا
ذرا سوچ ہمدم کہاں پر کھڑے ہیں

زمانے کے غم سارے تلوار بن کر
مسلسل مرے آشیاں پر کھڑے ہیں

بھلا کیسے  ہو گا یقیں ان کو حاصل
جو اب تک سروہی گماں پر کھڑے ہیں

خالد سروحی

 

غزل 

ایسے گھر کے دٙر و دیوار سے رخصت مانگی
جسطرح پھول نے گلزار سے رخصت مانگی

ہم تجھے دیکھنے کی فکر میں گھر سے نکلے
اس لیئے تو سبھی افکار سے رخصت مانگی

جب بھی شاخوں پہ شگوفوں نے دکھائی صورت
زرد پتوں نے بھی اشجار سے رخصت مانگی

اس قدر ذات میں بڑھنے لگی تھی نو میدی
زندگی نے سبھی آزار سے رخصت مانگی

ہم کو جلدی تھی کہ فردوس کو دیکھیں جاکر
اِس لیئے ہم نے ہے سنسار سے رخصت مانگی

خالد سروحی

 

غزل 

جو مرے دل کی آہ و زاری ہے
مدتوں سے یہ کام جاری ہے

اس کا کاجل لگا کے ہونٹوں پر
میں نے اس کی نظر اتاری ہے

روز ملتا ہوں جا کے میں اس کو
پھر بھی کیوں رہتی بے قراری ہے

جو ترے ہجر میں گزرتا ہے
ایک ایک لمحہ مجھ پہ بھاری ہے

عشق میں اشک یوں نکلتے ہیں
ایسا لگتا ہے سنگ باری ہے

خالد سروحی

 

غزل 

سبھی خواہشوں کو بھلا کر میں سویا
ترے غم کو سینے لگا کر میں سویا

میں یہ جانتا تھا روکیں گے نہ اک پل
نظر آنسوؤں سے چھپا کر میں سویا

توقع تھی جس کی نہیں دن وہ نکلا
مگر آس ہر شب لگا کر میں سویا

کرے گا معطر ہماری وہ سانسیں
ہواوں کو مژدہ سنا کر میں سویا

رہا منتظر ہوں میں سو کر بھی اپنا
نہیں خود کو خود سے ملا کر میں سویا

سبھی کام چھوڑے ادھورے ہیں لیکن
ترا نقش پورا بنا کر میں سویا

کئی رتجگوں کی یہ ماری تھی راہیں
انیں ساتھ اپنے سلا کر میں سویا

خیال اِن کا رکھنا ہمشیہ سروہی
کئی حسرتیں ہوں جگا کر میں سویا

خالد سروحی

 

غزل 

تیرے کہنے پہ بھی یہ راکھ بنایا نہ گیا
مٹ گئے حرف مگر خط کو جلایا نہ گیا

وہ تصور میں اکیلا ہی تھا مہماں دل کا
میں نے آنا تھا مگر مجھکو بلایا نہ گیا

آج بھی جاوں تو ہوتا ہے وہی رستے میں
ایک پتھر وہ جو رستے سے ہٹایا نہ گیا

میرے چہرے میں نظر آئے ترا چہرہ بھی
عکس چہرے میں کسی طور چھپایا نہ گیا

لڑکھڑاتا ہی رہا وقت کی راہوں میں سدا
بوجھ غم کا بھی سروہی سے اٹھایا نہ گیا

خالد سروحی

 

(پنجابی)غزل 

زہر پیالے  چٹ کے سارے
نسیاں رشتے کٹ کے سارے

حشر دھاڑے جا کے ویکھیں
کی لے گئے نے کھٹ کے سارے

عشق بازریں  ویکنے آیا
پونیاں لے گئے وٹ کے سارے

میں آپے وی سدھا ساداں
یار وی میرے جٹکے سارے

کنج گکھڑ دا مان نئیں ودھدا ( دستک)
زور جے لائیے ڈاٹ کے سارے

کنج سروہی سولی چڑھ دا
ویکھو پیچھے ہٹ کے سارے

خالد سروحی

 

غزل 

عشق کے شہر میں راستہ چا ہیئے   
  رہ گزر میں ترا نقش پا چا ہیئے

دی ہمیشہ تمہیں زند گی کی دعا 
ہم فقیروں سے اب تم کو کیا چاہیئے

تم کو پھر سے سنورنے کی ہے جستجو.     
    آئینے کے لئے آ ئینہ چاہیئے

ٹیس رہ رہ کے اٹھتی رہے جان جاں.    
    زخم مجھ کو ہمیشہ ہرا چا ہیئے

اپنی زنجیر وحشت سنبھالے رہوں.      
مجھ کو زنداں میں تھوڑی ہوا چاہیئے

اس قدر تیری الفت میں ہم کھو گئے.   
     اپنے گھر کا ہمیں اب پتہ چاہیئے

خالد سروحی

 

غزل 

تب سے  لا چار  ہو گیئں آنکھیں
جب سے دو چار ہو گیئں آنکھیں

دل  سے میرے  وہ  رشتہ  توڑ گئیں 
ان  کی غم خوار ہو گیئں  آنکھیں 

تیری چاہت  میں رات بهر جاگیں
کتنی بیدار ہو گیئں آنکھیں

اس ستمگر کی  دشمن جاں کی
کیوں طلب گار ہو گیئں آنکھیں

ڈھونڈ لاتی ہیں خواب میں اس کو
کتنی  فنکار ہو گیئں آنکھیں

دل یہ کہتا  ہے کہ اب  لوٹ  کے جب  آو  تم
میرے  ہی  پاس   رہو  اور  نہ پهر جاو  تم

میں تو آنکھوں کو بھی سونے نہیں دیتا جاناں
میں کسی خواب  میں ہوں اور  چلے  آو  تم

روز کہتی ہے ہمیں خواہش وصل جاناں
یار  کے   سامنے  ایسا  نہ  ہو  گهبراو  تم

تم  کو  پانے کی تمنا  بهی کبهی  پوری  ہو
پهول  کهلنے  کی  ہو  رت  اور  چلے  آو  تم

ہجر بهی وصل کی صورت میں ڈهلا جائے ہے
پیار  کی الجهی ہوئی گتهی کو  سلجهاو  تم

خوشبوئیں تم سے تعلق کی بدولت ہی ہیں
لالہ و گل  ہو  کہ  چنبیلی  ہو ،  مہکاو  تم

خالد سروحی

 

غزل 

جو چہرے سے تیرے ہٹا لیں گے آنکھیں 
خدا کی   قسم   ہم جلا لیں  گے آنکھیں

اگر جو تمہی کو نہیں دیکھ سکتے
بصیرت سے  ہم  کر  خفا لیں گے آنکھیں

اگر چاپ   تیرے جو   قدموں کی آئی
تو سجدے میں اپنی گرا لیں گے آنکھیں

جو اک بار ہم کو بھی   دیدار  دے دو
یہ ہے جھوٹ  مکھ  سے  ہٹا لیں گے آنکھیں

ہمارے  یہ شکوے گلے  دور کر  دو
زمانے سے ہم پھر ملا لیں گے آنکھیں

ہمیں تو نہ تھا علم کچھ بھی  سروہی
نئی  چہرے پر   وہ   سجا لیں گے آنکھیں

یہ سوچا نہ تھا وقت ایسا آئے گا
مرے بچے مجھ پر اٹھا لیں گے آنکھیں

خالد سروحی

Leave your comment
Comment
Name
Email