نوید اقبال

نوید اقبال

غزل

لوگ ناپید ہیں وہ پیارے سے
جن سے پیدا ہوے ہمارے سے

وہ یقیناً کسی کے حق میں تھا
میں پریشاں نہیں خسارے سے

بے سہارا کیا سہاروں نے
میری توبہ ہر اک سہارے سے

مانگنا ہے اگر خدا سے بھی
کون سمجھے گا پھر اشارے سے

دشمنوں کی میں کیا سناؤں تمہیں
یار ملتے نہیں تمہارے سے

جاں کی بازی لگائی دریا نے
پھر کنارہ ملا کنارے سے

کچھ تو بانٹو مرے جنوں کو بھی
خوف آتا ہے اتنے سارے سے

دیکھنے سے گیا ہوں سورج بھی
رستہ پوچھا تھا اک ستارے سے

مسکراہٹ اتار پھینکے تو
کون ملتا ہے غم کے مارے سے

ڈر رہا ہے مرا تخیل بھی
روند ڈالوں نہ استعارے سے

کس نے چھینا ہے گھونسلہ ان کا
کس کے بچے ہیں یہ بیچارے سے

اب تو پانی  گزر گیا سر سے
اب گزارا نہیں گزارے سے

نوید اقبال

Leave your comment
Comment
Name
Email