مظہر الحق

مظہر الحق

مظہر الحق 01.01.76 کو گکھڑ میں پیدا ہوئے. گکھڑ کے نامور اور کہنہ مشق شاعر و ادیب ہیں. اپنی شاعری کی وجہ سے ملکی سطح پہ شہرت رکھتے ہیں. غزل،. نظم اور نثر پہ ملکہ رکھتے ہیں. ان کے افسانے اور شاعری ملک کے کئی نامور ادبی جرائد میں چھپتے رہتے ہیں.آج کل پشاور یونیورسٹی سے ایم فل اردو کر رہے ہیں. اردو اور پنجابی میں غزل اور نظم کی طرف میلان زیادہ ہے. ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ” تریاق” منظرِ عام پہ آ چکا ہے اور کافی پذیرائی حاصل کر چکا ہے. گکھڑ کی دھرتی کو اپنے اس سپوت پہ نازاں ہے

تعارف کے طور پر ان کی چند غزلیں اورنعتیں پیش خدمت ہیں

نعتِ رسولِ مقبول

تخیل میں مدینہ پاک لا کر نعت لکھتا ہوں

سو یوں کچھ دیر مَیں طیبہ مِیں جا کر نعت لکھتا ہوں

 

کبھی جب نعت لکھنی ہو وضو کرتا ہوں اشکوں سےپ

ھر انکی یاد میں آنسو بہا کر نعت لکھتا ہوں

 

مقدس روشنائی میں بھگوئے لفظ چن چن کر

تقدس سے پھر ان سب کو سجا کر نعت لکھتا ہوں

 

ازل سے ہی ملائک سامعینِ اوّلیں میرے

ہمیشہ میں فرشتوں کو سنا کر نعت لکھتا ہوں

 

کثافت کا کوئی عنصر نہ شامل ہو عقیدت میں

سو اپنی روح سے تن کو ہٹا کر نعت لکھتا ہوں

 

اویسی اور بلالی عشق سے پہلے سند لے کر

خیالوں کو سند ان کی دکھا کر نعت لکھتا ہوں

مظہر الحق

———

نعتِ رسولِ مقبول

حضور آپ کی ہستی ، زمانِ رحمت ہے
“حضور آپ کا اسوہ جہانِ رحمت ہے”

حضور اِذن ملے پھر کسی قصیدے کا
حضور ! اذن ، طلسمِ بیانِ رحمت ہے

حضور آپ قیامت میں آخری امّید
یہ ایک آس فقط ، امتنانِ رحمت ہے

بھلا ہے رحمتِ کون و مکان کون آخر
بھلا ہے کون جو کون و مکانِ رحمت ہے

حیاتِ پاکِ نبی سے عیاں ہوا ہے یہ
حیاتِ پاکِ نبی داستانِ رحمت ہے

یہ سر زمینِ مدینہ ، ہے جائے فضل و کرم
جگہ جگہ یہاں وارفتگانِ رحمت ہے

یقیں کی آنکھ سے دیکھیں تو پھر نظر آئے
فقط یہ روضہ نہیں ، یہ نشانِ رحمت ہے

اگرچہ سایہ نہ ثانی کوئی رسولِ خدا
نبی کا سایہ مگر سائبانِ رحمت ہے

ٹھہر ٹھہر کے چلو اس فضائے طیبہ میں
قدم قدم پہ کُھلی اک دکانِ رحمت ہے

یہ معجزہ اسی دستِ کرم کا خاصہ ہے
بروزِ حشر ، کرم ، ارمغانِ رحمت ہے

ظہورِ نورِ نبی پر بتا دیا رب نے
کہ آستانِ نبی آستانِ رحمت ہے

یہ اعتراف کِیا ہے سبھی اندھیروں نے
درِ رسول ، درِ ضوفشانِ رحمت ہے

جو حرفِ آخر و حق ہے وہ خوش کلامِ زماں
فقط کلام نہیں ترجمانِ رحمت ہے

یہ سلسلہ ہے کرم فضل کا ازل تا ابد
کہ خاندانِ نبی خاندانِ رحمت ہے

یہ قافلہ جو درودِ نبی کا آتا ہے
رہِ زباں پہ رواں کاروانِ رحمت ہے

بروزِ حشر یقینِ شفاعتِ آقا
یقیں ہمارا تو عکسِ گمانِ رحمت ہے

سبھی نبی ہیں بہت ہی بلند رتبہ مگر
زمیں پہ ایک ہی بس آسمانِ رحمت ہے

اگر غلاموں میں میرا بھی نام شامل ہو!!
کہوں یہ شان سے سب کو ، یہ شانِ رحمت ہے

زہے نصیب! عطا مدحتِ رسول ہوئی
زبانِ عشق پہ جاری بیانِ رحمت ہے

نعتِ رسولِ مقبول

ہم نے نہیں لیا کبھی اغیار کا دیا
اپنے تو گھر میں صرف ہے سرکار کا دیا

ڈھونڈو نہ روشنی میں کسی داغ کا وجود
صدیوں سے جل رہا ہے یہ کردار کا دیا

اس روز لازماً ملی نعتوں کی روشنی
جس روز بھی جلا مرے افکار کا دیا

لفظوں کی روشنی سے سماعت مہک اٹھی
ہونٹوں کے طاقچے پہ تھا گفتار کا دیا

وہ آ فتابِ ارض و سماوات بن گیا
جس کو سمجھ رہے تھے سبھی غار کا دیا

اسوہ کے نور سے ہوا روشن جہاں تمام
اسلام میں کہیں نہیں تلوار کا دیا

نعتِ رسولِ مقبول

میں نعت سے ضوفشاں ہوا ہوں
زمین تھا ، آسماں ہوا ہوں

وجود سے نور کیوں نا پھوٹے؟
درود پڑھتے جواں ہوا ہوں

یہ فیضِ عشقِ رسول ہے بس
جو نعت میں یوں رواں ہوا ہوں

یہ مدحت و نسبتِ نبی ہے
جو آیتوں کی زباں ہوا ہوں

ہنر نہیں ہے ! فقط کرم ہے
جو اس قدر خوش بیاں ہوا ہوں

لٹا کے عشقِ رسول میں سب
میں مطمئن بھی کہاں ہوا ہوں

مظہر الحق

———

غزل

جہاں جہاں بھی میں بولا، جہاں نہیں بولا
سوائے میرے کوئی بھی یہاں نہیں بولا

سنے سوال سبھی جاہلوں کے میں نے مگر
سکوت اوڑھ لیا ، رائگاں نہیں بولا

ہزار بار منایا ہے وجہ پوچھی ہے
پر ایک بار بھی وہ بد گماں نہیں بولا

پھر ایک روز پلٹ کر جو بے وفا آیا
وہ بولتا رہا، میں درمیاں نہیں بولا

وہ دشت، پیاس،قیامت وہ معرکہ سچ جھوٹ
زمین چیخ اٹھی آسماں نہیں بولا

سخن وری کی قسم دکھ اٹھا لیے میں نے
یزیدِ وقت کی لیکن زباں نہیں بولا

ترے فراق میں جاناں کہاں دہائی نہ دی
کسے نہیں کہا میں نے، کہاں نہیں بولا

ہوئی روات سے جو بات کربلا پہ کچھ

وہ آب آب تھا آبِ رواں، نہیں بولا

مظہر الحق

———

غزل

ترا ہجر ایک وبال تھا مگر اب نہیں
تجھے بھول جان محال تھا مگر اب نہیں

مرے کردگار نکلتے وقت بہشت سے
مجھے تھوڑا تھوڑا ملال تھا مگر اب نہیں

ترا روگ چاٹ گیا ہے میرے حروف سب
مجھے گفتگو میں کمال تھا مگر اب نہیں

یہی اجنبی جو گیا یہاں سے ابھی ابھی
کبھی اپنا واقفِ حال تھا مگر اب نہیں

مری آئنوں سے تھی دوستی کسی دور میں
بڑا خوب اپنا جمال تھا ، مگر اب نہیں

نہیں جی سکیں گے بچھڑ کے ہم اسے تھا یقیں
مرا اپنا بھی یہ خیال تھا مگر اب نہیں

مظہر الحق

———

غزل

ہمیں جس پر یقیں ہے
کہاں وہ جا گزیں ہے

یقیں ہو تو کہیں ہے
وگرنہ کچھ/وہ نہیں ہے

مرے سجدے ترے ہیں
تری خاطر جبیں ہے

زمیں نیچے سے غائب
فلک سر پر نہیں ہے

جو ہے وہم و گماں میں
بڑا ہی دل نشیں ہے

تو خود بھی خوبصورت
ترا غم بھی حسیں ہے

مظہر الحق

———

 

غزل

اداسی ہم پہ طاری تو تمہارے نام نے کی
مگر اس پر طبیعت پر اذیت شام نے کی

دیے جرات کریں کیسے اجالے تھامنے کی
ہوا کا سامنا بھی اور ہوا بھی سامنے کی

اگر میں جنگ کرتا، سلطنت ہی جیتتا بس
دلوں کی جیت ممکن صلح کے پیغام نے کی

کہا کس نے جو سب کو رزق دے بس وہ خدا ہے!
پھر اس اک بات کی تائید خاص و عام نے کی

یہ مستی اپنی مستی ہے کوئی بھی مت یہ سمجھے
یہ کیفیت مسلسل جھومنے کی جام نے کی

جو نقادوں پہ لرزہ ہے وہ پختہ کام کا ہے
ہاں طاری کپکپی ان پر کلامِ خام نے کی

اگرچہ حسنِ یوسف انتہا کا منفرد تھا
مگر اس حسن کی شہرت زیادہ دام نے کی

ہمارے گھر نہیں پہنچی جو اک رہ تم نے بھیجی
تلاش اس کی دل و جاں سے بڑی ہر گام نے کی

اگرچہ سحر میں رکھا سبھی کو داستاں نے
مگر پھر بھی کہانی پر اثر انجام نے کی

مظہر الحق

———

 

غزل

چلی کیسی ہوا اف
بجھا ہر اک دیا آف

وطن کا دیکھتے ہی
یہی اٹھی صدا آف

ادائیں قا تلا نہ
مگر دستِ شفا اف

کہیں وہ قحط توبہ
کہیں اتنی غذا آف

کہیں مقبول سجدے
کہیں رد ہر دعا اف

در ندے ہی در ندے
بَہَتّر کربلا آف

غزل سن کر ہماری
فقط اتنا کہا اف

مظہر الحق

———

غزل

تجھے تکنا زیارت روشنی کی
تری ہستی عمارت روشنی کی

تجلی اک دِکھی تھی سامنے بس
بُجھی یکدم بصارت روشنی کی

ذرا دیکھو اندھیرے کی جبیں پر
نمایاں ہے عبارت روشنی کی

تجھے چھو کر سلامت ہے ابھی تک
ارے اتنی جسارت روشنی کی

یہ کیسے سات رنگوں میں ہے ڈھلتی
کبھی دیکھی مہارت روشنی کی

تری خاطر سجائی ایک محفل
جہاں رکھی صدارت روشنی کی

بتایا ہے مجھے یہ فاختہ نے
علامت ہے سدھارت روشنی کی

اور اب میں خواب اپنے بیچتا ہوں
میں کرتا ہوں تجارت روشنی کی

بھلا اس نور کی کیا بات ہو گی
جسے چھونا طہارت روشنی کی

مظہر الحق

———

غزل

گاؤں نے پشت پر ہے اٹھایا ہوا درخت
نسلوں کی کوششوں سے کمایا ہوا درخت

ایسے ہے میرے جسم میں تیرا فراق اب
اک بیج میں ہو جیسے سمایا ہوا درخت

ایسے ہوا کی نوک پہ آیا ہوا ہے دیپ
جیسے بشر کے ساتھ کٹایا ہوا درخت

گلزار کے سخن سے چرایا ہوا خیال
صندل کے جنگلوں سے چرایا ہوا درخت

اتنا ہے منفرد وہ بتانا بھی سہل ہے
جیسے کہ منتہیٰ پہ لگایا ہوا درخت

مظہر الحق

———

غزل

دئیوں پر لکھی ہے عبارت ہوا کی
کہ تاریکیاں ہیں شرارت ہوا کی

بجھے دیپ پر بیٹھ کر ایک جگنو
ہوا کر گیا سب حقارت ہوا کی

مدینے کو جانا مدینے سے آنا
حقیقت میں یہ ہےطہارت ہوا کی

چہکنے لگے ہیں اندھیرے یونہی کیا!
انھیں مل چکی ہے بشارت ہوا کی

اگر وقت ہو قیس تو دشت میں ہم
ذرا کر کے آئیں زیارت ہوا کی!!؟

بجھا کے دیا، پھر گرا بھی دیا ہے
ارے اتنی جرات جسارت ہوا کی

جلائے بھی خود ہی بجھائے بھی خود ہی
سمجھ ہی نہ آئے بجھارت ہوا کی

کہاں بھولتی ہیں دئیوں کو وہ راتیں
انھیں یاد ہے قتل و غارت ہوا کی

کرو کوئی قندیل روشن کہیں بھی
ذرا دیکھیے پھر بصارت ہوا کی

مساموں سے آنسو نکلنے لگے تھے
گِری حبس سے جب عمارت ہوا کی

سرِ دشت مجنوں کی شہ پر مسلسل
جنوں کر رہا ہے تجارت ہوا کی

وہیں پھر مہک نے بصارت عطا کی
جدائی نے جو تھی بصارت ہوا کی

ارے دشت کے چاک پر یہ بگولے
یہ کوزہ گری یہ مہارت ہوا کی

مظہر الحق

Leave your comment
Comment
Name
Email