ندیم اصغر

ندیم اصغر

غزل

کِس نے جانا آج تک یہ دکھ کہانی کار کا؟

جانے کس دل سے دِکھاتا ہے تماشہ پیار کا

ڈاکیے سے اُس کی جانب سے وصولی ڈاک

اورروتے روتے پڑھ نہ پایا سارا صفحہ تار کا

گال چوما تو حیا سے اُس نے آنکھیں مِیچ لیں

اُف خدارا کھول دروازہ نشیلی بار کار

رزق چگتے چند پنچھی رزقِ انساں ہو گئے

کوئی پوچھے دکھ بھلا جاتی ادھوری ڈار کا

اُس کے دل سے جونہی نکلا آنکھ یہ چندھیا گئی

ایک مدت سے میں قیدی تھا اندھیرے غار کا

ندیم اصغر

Leave your comment
Comment
Name
Email