رضااحمدرضا

رضااحمدرضا

احمد رضا یکم جنوری 1979کو گکھڑ میں مولانا اصغر علی  کے گھر پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم گکھڑ سے حاصل کی اور آٹھویں کلاس سے شاعری کا آغاز کیا۔اپنا تخلص رضا لکھتے ہیں یو ں ان کا ادبی دنیا میں ان کا نام رضااحمدرضا ہے آج کل سلسلہ روزگار کی وجہ سے ابوظہبی میں مقیم ہیں، نعت نظم اور غزل لکھنے میں اپنی مثال آپ ہیں بہت سارے ادبی رسائل میں ان کلام چھپتا رہتا ہے اور ابوظہبی میں بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت جناب کا معمول ہے اور ادبی حلقوں میں ایک مقام رکھتے ہیں گکھڑ کے لوگوں کو اپنے سپوت پر فخر ہے

تعارف کے طور پر ان کی چند غزلیں پیش خدمت ہیں

غزل

سنتی ہے شب کی خامشی روزانہ گفتگو کرتا ہے میرے ساتھ یہ ویرانہ گفتگو

کرتا ہے یار یار سے یارانہ گفتگو جانانہ گفتگو کبھی مستانہ گفتگو

بس ایک ہم ہیں واقِفِ اٙسرارِ بے خودی ہم سے کرے گا صاحِبِ میخانہ گفتگو

اسکو لگا کہ ہے مجھے خیرات کی طلب اسکو سمجھ نہ آئی فقیرانہ گفتگو

بوئے دہن سرور و خماری نہ مہ کشی رندوں کی ترجمان ہے رندانہ گفتگو

یوسف ہوں میں نہ کوئی زلیخا سے واسطہ دل ہے کہ چاہتا ہے زلیخانہ گفتگو

اس کا زرا بھی علم نہیں اہلِ علم کو کرتا ہے کیسے علم سے دیوانہ گفتگو

یہ اجنبی ملا ہے مجھے کیوں تپاک سے کرتا نہیں ہے یوں کوئی بیگانہ گفتگو

کہتا نہیں ہے تیرے لیئے جل رہا ہوں میں کرتا نہیں ہے شمع سے پروانہ گفتگو

بیکار میں ہی دیکھتے ہیں لوگ ڈگریاں جب علم ماپنے کا ہے پیمانہ گفتگو

بچپن میں گھر کے لوگ کیا مصروف تھے رضا سننے لگے ہیں اب مری بچگانہ گفتگو

رضااحمدرضا


غزل

بیکار سمجھ کر کسی کونے میں نہ رکھو اکتا جو گئے ہو مجھے کمرے میں نہ رکھو

لے جائے سمجھ کر نہ کوئی مالِ غنیمت میں رختِ سفر ہوں مجھے رستے میں نہ رکھو

جو میں نے خطا کی ہے مجھے اس کی سزا دو تم میرے عقیدے کو کٹہرے میں نہ رکھو

آنے ہیں ابھی اور بھی تاریک زمانے تم اپنے چراغوں کو اندھیرے میں نہ رکھو

میں بول بھی سکتا ہوں کسی بات پہ اک دم تصویر بنا کر مجھے کمرے میں نہ رکھو

صاحب یہ مرا پیٹ نہ باتوں سے بھرے گا تم علم کے سکے مرے کاسے میں نہ رکھو

یہ جسکی امانت ہے کرو اس کے حوالے اب اس دِلِ بیمار کو سینے میں نہ رکھو

تم جیت کی دولت میں کرو ان کو بھی شامل ہارے ہوئے لوگوں کو خسارے میں نہ رکھو

میں بھی نہیں رکھتا ہوں تم سے کوئی سروکار تم بھی کوئی رائے مرے بارے میں نہ رکھو

کر لوں گا بغاوت پہ اسیروں کو میں قائل پنچھی ہوں میں باغی مجھے پنجرے میں نہ رکھو

آتی ہے نظر جو مجھے باتوں سے تمہاری اس گرمیئے جذبات کو پردے میں نہ رکھو

سمجھیں گے رضا لوگ اسے تیری کہانی چاہت کے مضامین فسانے میں نہ رکھو

رضااحمدرضا


غزل

ممکن جو نہیں ترک وہ امکان کیا جائے مشکل ہے کسی شخص کو آسان کیا جائے

آنکھوں سے بہر طور ہے برسات گزرنی پلکوں کو جھپکنے میں نہ ہلکان کیا جائے

آسان نہیں سانس مگر لے تو رہے ہیں کیا اور بتا زندگی احسان کیا جائے

تنہائی کا یہ رنگ بدلنا ہے اگر تو سوچوں میں کسی شوخ کو مہمان کیا جائے

احسان ترے غم کو سمجھتا ہے مرا دل مت اسکو خوشی دے کے پشیمان کیا جائے

وہ مجھ سے کرا سکتی ہے پروز قفس میں خواہش کو مری واصٙلِ زندان کیا جائے

صحرا کو چمن ہم نے بنایا ہے اب اسکو آباد رکھا جائے کہ ویران کیا جائے

ہمزاد کو پیغام یہ بھیجا ہے کہ مجھ پر واضح کسی صورت مرا عرفان کیا جائے

محکوم رعایا کا ہوا حاکمِ اعلٰی اس شہر میں اب جشن کا اعلان کیا جائے

سنتے ہیں کہ وحشت ہےترے نام سے اسکو کسطرح رضا ختم یہ ہیجان کیا جائے

رضااحمدرضا


غزل

گر انگلیوں سے نقش نگاری نہیں گئی کیوں کینوس پہ شکل ابھاری نہیں گئی

سب دوست تم نے کھو دیئے تکرار کے سبب عادت مباحثے کی تمہاری نہیں گئی

گو انتہائی حد پہ کفن پیرہن بنا لیکن قبائے زیست اتاری نہیں گئی

ہم کیا سنوار پائیں گے شاخِ گُلِ نہار ہم سے تو زلفِ یار سنواری نہیں گئی

اس زندگی سے ہے یہ شکایت کہ ہم سے تو اپنے ہی ساتھ عمر گزاری نہیں گئی

کیوں کر نہیں سکی ہمیں ہم سے قریب تر کیوں سوچ اتنی دور ہماری نہیں گئی

پھر چھو نہیں سکا کوئی معراجِ آگہی اقصٰی سے اور کوئی سواری نہیں گئی

تعلیم دے رہے ہیں وہ ترویجِ نسل کی جن سے خود اپنی نسل سنواری نہیں گئی

کیا مہکدہ کھلا ہے رضا ماہُ سال کا حسنِ رسا کی چشم خماری نہیں گئی

رضااحمدرضا


غزل

جاتے نہیں کہیں بھی یہ کتنے عجیب ہیں ٹوٹے ہوے قفس کے پرندے عجیب ہیں

کیوں ہچکچا رہا ہے تو سچ بولتے ہوے گر لوگ ہیں عجیب تو کہدے عجیب ہیں

اِس بار دشمنوں نے کیا مجھکو باخبر اِس بار دوستوں کے ارادے عجیب ہیں

غم ہو کہ ہو خوشی چلے آتے ہیں دیکھنے اِن آنسووں کے آنکھ سے رشتے عجیب ہیں

بدلیں رتیں تو ٹوٹ کے آتے ہیں سامنے ناکام خواہشوں کے اثاثے عجیب ہیں

ہم سے تو کیا کسی سے بھی پورے نہیں ہوئے اِس زندگی کے یار تقاضے عجیب ہیں

دیتے ہیں خود ہوا یہ تجسس کی آگ کو رہتے ہیں جو نقاب میں چہرے عجیب ہیں

گونجی بھی سرسرائی بھی چیخی بھی رات بھر اے میری بے کسی ترے لہجے عجیب ہیں

ہوتی ہے اِن کومات مگر مانتے نہیں اس پیار کی بساط کے مہرے عجیب ہیں

یونہی پڑے ہوئے ہیں یہ دہلیزِ یار پر مثگانِ خم پہ آب کے قطرے عجیب ہیں

شامل ہے ان کا نام بھی اہلِ زبان میں کرتے نہیں کلام یہ گونگے عجیب ہیں

خود کو غلام کہہ کے کسی پیر کا رضا معبود ڈھونڈتے ہیں جو بندے عجیب ہیں

خاموش رہ کے بھی ہے رضا محوِ گفتگو ہر انجمن میں اس کے تماشے عجیب ہیں

رضااحمدرضا


غزل

پہلی خوشی میں اگلی خوشی حل نہ ہو سکی یہ زندگی نشاطِ مسلسل نہ ہو سکی

ہو تو گئی ہے یار کی صورت نظر سے دور لیکن مرے خیال سے اوجل نہ ہو سکی

راہِ جنوں میں جانیئے وہ رائیگاں گئے جن آبلوں سے دشت میں ہلچل نہ ہو سکی

اہلِ ہوس نے عشق پہ کیا کیا ستم کئے لیکن یہ داستان معتل نہ ہو سکی

ہم نے لہو غبار کیا راہِ عشق میں پھر بھی یہ خاک زینٙتِ مقتل نہ ہو سکی

نکلے ہوئے ہیں کھوج میں صدیوں سے ہم مگر تحقیقِ کا ئنات مکمل نہ ہو سکی

بے چشم کارئین میسر ہوئے اسے تحریرِ نور صورٙتِ مشعل نہ ہو سکی

کنکر تو سسکیوں کے رضا پھنکتا رہا کیوں خامشی کے بحر میں جل تھل نہ ہو سکی

رضااحمدرضا

Leave your comment
Comment
Name
Email