عارف اویسی

عارف اویسی

محمد عارف مغل5 دسمبر 1965 کو گکھڑ کے نواحی گاؤں وائیاں والی میں پیدا ہوئے۔اپنا تخلص عارف لکھتے ہیں سلسلہ اویسیہ سے نسبت کے سبب ادبی دنیا میں عارف اویسی کے نام سے جانے جاتے ہیں . میٹرک تک تعلیم حاصل کی. اردو اور پنجابی میں شاعری کرتے ہیں اور عارف اویسی کے والد محترم بشیر پردیسی بھی پنجابی کے بہت اچھے شاعرتھے .ان کا کلام مختلف ادبی جرائد میں چھپتا رہا ہے.گکھڑ کی دھرتی کو اپنے اس سپوت پہ ناز ہے

تعارف کے طور پر ان کی چند غزلیں پیش خدمت ہیں

غزل


عشق میں ہم پر کیا گزری ہے مت پوچھو تو اچھا ہے
کس نے کیسی چال چلی ہے مت پوچھو تو اچھا ہے


چل سکتا تھا چال انوکھی جیت یقنا ہو سکتی تھی
پھر یہ بازی کیوں۔ ہاری ہے مت پوچھو تو اچھا ہے

ہاتھ ملانے والے دیکھو کتنے مخلص لگتے ہیں
دل میں کتنی آگ بھری ہے مت پوچھو تو ا چھا ہے


سچ ہی کہتا تھا وہ ہم سے ہر دیوار گرا سکتا ہے
گر تو گئی پر کس پہ گری ہے مت پوچھو تو ا چھا ہے۔


ہجر کی کالی رات میں عارف وہ تو تنہا چھوڑ گئے تھے
پھر کیسے وہ رات کٹی ہے مت پوچھو تو ا جا ہے
عارف اویسی


غزل


اب غم۔ یار نہ چھلکا کرنا
ہے یہ رسوائی نہ رویا کرنا


آ گیا ترک۔ تعلق کا مقام
جو ہے ہر طور گوارہ کرنا


ہو چکے غیر وہ اب مان بھی جا
غیر کی کیسی تمنا کرنا


کون بیٹھا ہے منانے تجھ کو
اب تو تادیر نہ روٹھا کرنا


آ نہ جائے وہ ترے خوابوں میں
بے خبر ہو نہ سویا کرنا


ریگ۔ کربل پہ یہی لکھا ہے
لفظ۔ خودداری نہ رسوا کرنا


یاد آتی رہی ان کی عارف
رہا بے سود بھلایا کرنا
عارف اویسی


غزل


کہانی ذکر کرنا چاہتا ہوں
میں اب تجھ سے بچھڑنا چاہتا ہوں


میں پتھر ہوں پگھلنا چاہتا ہوں
کسی سانچے میں ڈھلنا چاہتا ہوں


کسی ویران خواہش کی طرح میں
ترے دل سے اترنا چاہتا ہوں

محبت روگ بنتی جا رہی ہے
اسے بھی ترک کرنا چاہتا ہو۔ں


لہو کی جھیل میں خود کو بگھو کر
سر۔ محفل سلگنا چاہتا ہوں


ترے زخمیدہ لفظوں کی عبارت
بیاض۔ جاں کھرچنا چاہتا ہوں


گریزاں دیکھتا ہوں جس کو اکثر
میں اس کی خو بدلنا چاہتا ہوں

جسے پارس سمجھ کر میں نے پوجا
میں وہ پتھر پرکھنا چاہتا ہوں


مجھے عرفان دے گا کون عارف
میں یہ موضوع بدلنا چاہتا ہوں
عارف اویسی


غزل


صلح کرنا تو اک بہانہ تھا
گو کہ انداز قاتلانہ تھا


جاں سے گزرے تو بھید یہ پایا
وہ حقیقت نہیں فسانہ تھا


وقت گزرا ہے ایک ایسا بھی
سایہء ذات جب بگانہ تھا

اس کی منظر کشی پہ حیراں ہوں
کیا تعارف وہ غائبانہ تھا


دل سلگتا تھا سوز۔ ہجراں سے
نارسا اس کا شاخسانہ تھا


رنجشیں اور بڑھ گئی ہوں گی
دشمن۔ جاں مرا زمانہ تھا

پڑھ کے رویا بیان۔ عارف کو
ایک اک حرف عارفانہ تھا
عارف اویسی


غزل


سحاب جو بھی مقرر تھا حفظ۔ جاں کے لیے
مثیل۔ برق۔ تپاں تھا وہ آشیاں کے لیے


ہماری آنکھ کا دریا تو ایک مدت سے
رکا ہوا ہے کسی بحر۔ بیکراں کے لیے

سوال بن کے ابھرتے ہیں میری سوچوں میں
جو لفظ تم نے چنے تھے مری زباں کے لیے


کوئی تو آئے جو مرے آنسوؤں کو پہچانے
تڑپ رہا ہوں میں برسوں سے امتحاں کے لیے


میں خالی ہاتھ کھڑا ہوں تمہاری چوکھٹ پر
ایاغ۔ دید عطا کر سرور۔ جاں کے لیے


حدود۔ کرب کو ہی قریب سے چھوتا
یہ جاں سلگتی رہی کسی رازداں کے لیے

اس ایک شرط نے رسوا کیا مجھے عارف
کہ میں نے ہار بھی مانی تو بد گماں کے لیے
عارف اویسی


غزل


کام اب کے یہ خاص کر آیا
میں بھی اس کو اداس کر آیا

نوچ ڈالی منافقت اس کی
یوں اسے بے لباس کر آیا


غوطہ زن ہی رہے گا حیرت میں
اک سمندر کو پیاس کر آیا

بے خبر ہی وہ خود سے بہتر تھا
کیوں اسے خود شناس کر آیا


میں نے پہلی اڑان بھر لی ہے
اور اسے محو۔یاس کر آیا

یہ بھی اک امتحان تھا عارف
اس کو عارف شناس کر آیا

عارف اویسی

 

Leave your comment
Comment
Name
Email