خالد محمود بٹ

خالد محمود بٹ

خالد محمود بٹ09 اکتوبر 1970کو پیدا ہونے والے گکھڑ کے ایک ابھرتے ہوئے شاعر ہیں اپنا تخلص حافظ کرتے ہیں کیونکہ موصوف حافظ قرآن بھی ہیں اور تجوید القرآن کاکورس بھی کیا ہے ۔انکو ماں بولی میں شعر کہنا اور اپنے جذبات کا اظہار کرنا نہ صرف اچھا بلکہ آسان بھی لگتا ہےعرصہ دراز سے سکھر (سندھ) اور گکھڑ میں صحافت کے پیشہ سے منسلک ہیں اور اپنی زمہ داری بخوبی احسن طریقہ سے نبھا رہے ہیں اور ہمارے گکھڑ کا فخر ہیں

تعارف کے طور پر ان کی چند غزلیں پیش خدمت ہیں

نعت رسول مقبول


کرنے لگا ہوں جب سے میں مدحت رسول کی
پانے لگا ہوں تب سے شفاعت رسول کی


تقسیم دو جہاں میں ہوئیں رحمتیں بہت
پائی ہیں ہر کسی نے شفاعت رسول کی


رکھا ہے ھم نے ایک تعلق درود سے
کچھ ایسے مل رہی ہنے رفاقت رسول کی


اس واسطے یہاں بھی لگاتا ہوں حاضری
ہوتی ہنے ایسی بزم میں شرکت رسول کی


ہر دم دعائیں مانگو خدا سے فقط یہی
خالد رهے ہمیشہ محبت رسول کی

خالد محمود بٹ

شہدائے کربلا کے نام عقیدت کے پھول

لکھا گیا ہے خون سے قصہ حسین کا
تاریخ کو ہے آج بھی صدمہ حسین کا


فکر حسین پائی ہے گرچہ جہان نے
حاصل نہ کر سکا کوئی جذبہ حسین کا


گریئے کے ساتھ ہی میرے آنسو ابل پڑے
آنکھوں میں جل رہا ہے یوں خیمہ حسین کا


ھم نے سنا ہے عرش پہ ماتم ہوا بہت
روندہ گیا جو فرش پہ لاشہ حسین کا


باطل سے کہہ دو لائے مقابل کوئی یزید
پڑھتا ہوں برملا میں نوحہ حسین کا


کربل کا واقعہ سنا سب نے یہاں مگر
پہچان بھی سکا کوئی رتبہ حسین کا


بازو تو کٹ گئے ہیں علمدار کے مگر
اونچا رہا جہان میں جھنڈہ حسین کا


فطرت کے سومنات سے باہر نکل کے دیکھ
ماتم ہے عرش و فرش پر برپاء حسین کا


اسکو ملے گا زیست میں خالد کوئی یزید
جس نے بھی چن لیا ہے رستہ حسین کا

 


 

مجھے ہے بس ایک کام کرنا
حسینیت کو ہے عام کرنا


یز ید کو ہے لگا م د ینی
یزیدیت اختتام کرنا


جو بجھ کے بھی نور دے رهے ہیں
تو ذکر انکا دوام کرنا


دیئے بہتر بجھا کے جبر”ا
سحر کو پھر قید شام کرنا


مقام زینب سمجھ نہ آئے
تو ذکر عالی مقام کرنا


وہ طفل مقتل کی بات کرکے
پھر آنکھ اشکوں کے نام کرنا


جہاں کہیں ذکر فاطمہ ھو
تو حجتیں سب تمام کرنا


یزیدیت کو جنہوں نے روکا
فقط انہی کو امام کرنا


نہ بغض رکھنا علی سے یارو
نہ زندگی کو حرام کرنا


یہ بس انہی کا ہے کام خالد
کہ چڑھ کے نیزے کلام کرنا

خالد محمود بٹ

غزل 

ہجر کا سود بھر رہا ہوں میں
عشق کو اشک کر رہا ہوں میں


زندگانی کی آرزو کر کے
اپنے اندر ہی مر رہا ہوں میں


وصل جاناں میں دربدر ھو کر
منتیں اسکی کر رہا ہوں میں


کر دیئے ہیں سبھی دیئے روشن
چاند سے بے خبر رہا ہوں میں


قتل ھو کر میں اسکی محفل میں
دیکھ زندہ مگر رہا ہوں میں


دید پا کر نہ سیر ھو پایا
چشم نم سے ہی تر رہا ہوں میں


اک دعا تھا غریب کی شاید
اسلئے بے اثر رہا ہوں میں

خالد محمود بٹ

 

غزل 

اسی پر جاں لٹاتا جارہا ہوں
جسے اپنا بناتا جارہا ہوں


مجھے معلوم ہے میرا نہیں وہ
فریب اس سے میں کھاتا جا رہا ہوں


ستم اسکے ہیں ایسے کیا بتاؤں
تعلق کو نبھاتا جا رہا ہوں


تعلق بن گیا تھا درد سر جو
وہ آنکھوں سے بہاتا جا رہا ہوں


بنا جن کے نہ گزرے وقت میرا
میں وہ شکلیں بھلاتا جارہا ہوں


ترے کوچے میں آنے جانے سے
نئے دشمن بناتا جارہا ہوں


تصور میں بلا کر اسکو خالد
غزل اپنی سناتا جارہا ہوں

خالد محمود بٹ

 

غزل 

چل پڑیں ہیں پاگل ہوائیں خیر ھو
ڈر رہی ہیں سب ضیائیں خیر ھو


ظالموں کے سامنے کچھ بولئے
دب گئی ہیں کیوں صدائیں خیر ھو


ھو نہیں سکتا میں اسکے روبرو
جان لیوا ہیں ادائیں خیر ھو


دسترس میں کچھ نہیں درویش کی
ہاتھ اٹھا اور کر دعائیں خیر ھو

ھو گئی اعمال کی ڈھیری فناءء
در گزر کردے خطائیں خیر ھو


نعمتیں ہیں سب ترے در کے طفیل
سب پہ ہیں تیری عطائیں خیر ھو


فصل ہے تیار کٹنے کے لئے
آرھی ہیں کیوں گھٹائیں خیر ھو

خالد محمود بٹ

 

غزل 

پیار کا گیت گنگناتے ہوۓ
رو پڑا ہوں میں مسکراتے ہوئے


شمع اک ہے ہزار پروانے
بجھ رهے ہیں اسے جلاتے ہوئے


نیند نوچی ہے اس نے آنکھوں سے
ہاتھ چھوڑا ہے جاں چھڑاتے ہوئے


روٹھ جائے گا وہ ، نہ سوچا تھا
تھک گیا ہوں اسے مناتے ہوئے


دل کی بستی اجاڑ دی اس نے
میں تھا اجڑا جسے بناتے ہوئے


تیز چلتا ہے ایسے قدموں سے
گر پڑا ہوں اسے اٹھاتے ہوئے


اک جھڑی آنسوؤں کی ہے خالد
جام چھلکے ہیں چپ کراتے ہوئے

خالد محمود بٹ

 

غزل 

مِری محبت کے رنگ دیکھو
گلاب چہرے ہیں سنگ دیکھو


یہ بُجھتے چہرے جلا دیئے ہیں
مِری اندھیروں سے جنگ دیکھو


یہ اہلِ دانش ہیں کس لئے چپ
جنون سے کیوں ہیں تنگ دیکھو


جو چاہیئے تم کو راہ سیدھی
تو اپنا اک ایک انگ دیکھو


یہ دل کی دھڑکن سے بات کر کے
ہوئی ہے پیدا امنگ دیکھو


لباس میں بھی ہے بے لباسی
تم اپنے رنگ اور ڈھنگ دیکھو


دھمال ڈالے ہے دل میں خالد
خیال کا اک ملنگ دیکھو

خالد محمود بٹ

پنجابی وچ آکھے گئے اکھر

وس چلے تے چار چفیرے
سچ دے دیوے بال دیاں میں


اک بس اوہدا نام لواں تے
اوکھا ویلا ٹال دیاں میں


او جے مینوں یاد آ جاوے
اپنے اتھرو بال دیاں میں


ہر کوئی رب دا منن والا
دسو کنوں گال دیاں میں


یاداں دا میں بال کے بالن
تے اکھاں نوں گال دیاں میں


کر دے نئیں جے تیرے اتھرو
ایناں نوں کوئی ڈھال دیاں میں

جے کر میرے لگ جائیں متھے
ایسا دل دا حال دیاں میں


بے آساں دے گوڑھے نھیرے
آس دے جگنو بال دیاں میں

خالد محمود بٹ

 

پنجابی

تھاں تھاں ایویں مونہہ چَلانا کم تے نئیں
پیسے لئی ننگیج وَکھانا کم تے نئیں


جنہوں ویکھو اپنا ڈِھڈ ای کج دا ایہہ
اسماناں تے تُھکّی جانا کم تے نئیں


ہِک واری جے اوہدی گَل میں منّی نئیں
رولا پا پا سب نوں سنانا کم تے نئیں


جتھے مِل دا جد وی مِل دا عزت دیندا
باجھوں اپنا وَیر وکھانا کم تے نئیں

اج وی میرے وَیری اوہدے سجن نیں
اوتھوں فیر سلاماں آنا کم تے نئیں


جتھے مل دا اوتھے لف لف جانداایہہ
مگروں متھے وٹ پئے پانا کم تے نئیں


اگے پچھے میرے اتے بھونکی جانا
ویکھ کے مینوں پونچھ ہلانا کم تے نئیں


ایدھر اودھر ویکھ کے گلاں کر دا ایہہ
ڈھڈ اچ اپنے کھوٹ کھڈانا کم تے نئیں


اج وی اوہنوں ہر تھاں میں ای دِسنا واں
ویکھ کے مینوں مونہہ پرتانا کم تے نئیں


اندر اوھدے ڈھیر پلیتی لِنبی ایہہ
باہروں بنکےپاک وکھانا کم تے نئیں

خالد محمود بٹ

Leave your comment
Comment
Name
Email